Sunday 20 March 2011

Islam Ki Aar Mein!

اسلام کی آڑ میں! ………ثناء بُچہ

چند ماہ پہلے کراچی میں میگڈلین نامی نرس نے اپنی عزت بچانے کی خاطرنرسنگ ہاسٹل کے تیسرے فلور سے چھلانگ لگا دی۔ زخموں سے چوراِس لڑکی کواسپتال میں داخل کرا یا گیا۔ ہوش آنے کے بعد میگڈلین نے اپنا بیان رکارڈ کرایا۔واقعات اور میڈیکل رپورٹس نے اس کے ساتھ ہونے والی زیادتی کو ثابت کر دیا۔ اس گھناوٴنے جرم کا ارتکاب کرنے والا ایک معزز عہدے پر فائز ایک سرکاری افسر ایم ایل او عبدالجبار میمن تھا۔یہ قصہ سامنے آنے پر حسب معمول میڈیا نے بھی اس ایشو کو اٹھایا، صوبائی اور وفاقی حکومتوں نے اس کا نوٹس لیا ، غیر جانبدارانہ تحقیقات کے وعدے اور ملزم کو قرار واقعی سزا کے دعوے بھی کیے گئے لیکن۔۔۔پھر ہوا کیا؟

میگڈلین صحتیاب ہوئی ، گھر پہنچی، کئی ہفتوں تک اس کیس کی بازگشت سنائی دیتی رہی،لڑکی خود بھی موصول ہونے والی دھمکیوں کا تذکرہ کرتی رہی اور پھر جانے کیوں اس کی یادداشت نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا اور اس نے عدالت میں اپنے مجرم کو پہچاننے سے انکار کر دیا۔ کچھ نے کہا کہ شایدوہ ڈر گئی، کچھ نے کہا کہ بِک گئی۔کچھ پیسے اُسے صوبائی حکومت نے دیے، کچھ چیک اسے این جی اوز سے ملے اور یادداشت بھولنے کے لئے ایم ایل اونے خود بھی بڑی رقم پیش کر دی۔ذرائع کے مطابق اس لڑکی کو لگ بھگ چوبیس لاکھ روپے کھلائے گئے۔ پھر میڈیا ڈھونڈتا ہی رہ گیا۔ گھر پر تالے اور موبائل بند۔چونکہ اس معاملے کو دبانے کے لیے شریعت سے کوئی مدد نہیں مل رہی تھی اسی لیے یہاں دھونس اور دھاندلی سے کام لیا گیا۔ لیکن دھونس، دھاندلی اور لالچ کا استعمال تو اور بھی کہیں ہوا لیکن اس دفعہ آڑ اسلامی قوانین کی لی گئی۔

آج پھر اقتدار اورسیاسی ساکھ بچانے کے لیے اسلام کو قربان کردیاگیا ہے۔ قصاص اور دیت یقینا اسلامی قوانین ہیں، لیکن ہمارے ملک میں ان کی تشریح پربھی سوالیہ نشان ہے۔لیکن آج جب کہ ریمنڈ ڈیوس کیس کونمٹانے میں عالمی طاقتیں، ریاستی قوتیں اور اِن ریاستی قوتوں کے اوپر بیٹھےحساس اداروں کی مرضی شامل ہے تو ایک بار پھر اسلامی قانون کو اپنی ضرورت اور چاہت کے مطابق استعمال کیا گیا ہے۔اور آج لعنت ملامت کرنے کے لئے ہم سب کے پاس وہ اُنیس افراد ہیں جو فہیم اور فیضان کے ورثا ء کے طور پر سامنے آئے۔ لیکن ان انیس افراد کے دل کی آوازتو نہ ہمیں پہلے سنائی دی تھی نہ اب معلوم ہو سکی ہے۔پہلے اُ ن کی آواز غیرت لابی کے شور اوران کو کنٹرول کرنے والی قوتوں کے زور میں دب گئ ۔اور آج اُن پر کی جانے والی لعنت ملامت کی وجہ سے اُن کے گھروں پر ہی نہیں، ان کے منہ پر بھی تالے پڑ گئے ہیں۔

 اس شور میں اگر کوئی آواز ہمیشہ کی طرح صاف سنائی پڑتی ہے تو وہ ہے اُس جھوٹ کی جو ہم سالہا سال سے سنتے آ رہے ہیں۔اور کیوں نہ سنیں، اس جھوٹ کو چلنے کے لئے اسلام کی بیساکھی جو تھما دی جاتی ہے۔ کبھی اس جھوٹ کی بنیاد پرامریکی مفاد کی خاطرسوویت جنگ کے لیے مجاہدین تیار کیے گئے، کبھی فرقہ واریت کا جن بوتل سے آزاد کیا گیا اور کبھی معصوم ذہنوں کو خود کش جیکٹس پہنائی گئیں۔اسلام جو امن اور سلامتی کا دین ہے اسے فساد برپا کرنے کے لئے استعمال کیا گیا۔اور جب تک اس سے من چاہے مفادات ملتے رہے مذہبی نعرے بلند ہوتے رہے۔لیکن مفادات کے حصول کی خاطر ہم نے اسلام کے دامن کو داغ دار کر دیا جس کے نتیجے میں آج اسلام اور اُس کے ماننے والے دنیا بھر میں مشکوک ٹھہرے۔ ہم نے کبھی امریکا کو منانے کے لئے، کبھی عوام کو بہلانے کے لئے اور کبھی خود کو منوانے کے لئے ، ہمیشہ ہی اسلام کا سایہ تلاش کیا۔ تو آج ڈیوس کی رہائی پر شور کیوں؟

 اگر شور ہی مچانا ہے تو پھر اسلام کو بچانے کے لئے مچاوٴ۔ اس بات پر مچاوٴکہ سلامتی کے ضامن اسلامی قوانین کو امریکی مفادات کی خاطر کیوں استعمال کیا گیا۔ لیکن اس پر تو شور شاید اس لیے نہیں مچے گا کیونکہ”وہ “ نہیں چاہتے۔ اورجب تک”وہ “ نہیں چاہتے ، نہ اِس ملک میں کوئی ڈیوس پکڑا جاسکتا ہے نہ چھوڑا جاسکتا ہے۔ جب تک پس پردہ ہاتھ نے چاہا سڑکوں پر ہزاروں کا مجمع تھا۔ لیکن اب باہر نظر آنے والے لوگ کتنے دنوں تک ”غدار ہے ،غدار ہے“ اور”مردہ باد،مردہ باد“ کے نعرے لگائیں گے، یہ وقت ہی بتائے گا۔شاید چند روز میں یہ لوگ بھی غائب ہوجائیں گے اور پھر باقی رہ جائیں گے سیاست کو زندہ رکھنے کے لیے گرما گرم بیا نات۔

 ڈیوس کا معاملہ سیدھا تھا۔ وہ تین جرائم کا مرتکب ہوا۔ پہلا دو اافراد کا قتل، دوسرا ناجائز اسلحہ رکھنا اور تیسرا حساس مقامات کی تصویریں بنانا۔ ڈیوس مقتولین کے ورثا ء کا ہی نہیں بلکہ ریاست کا بھی مجرم تھا۔ اگر اسے ویانا کنونشن کی روشنی میں استثنیٰ حاصل تھا تو عدالت اور مقتولین کے ورثا ء اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے تھے۔اور ظاہر ہے اُسے استثنیٰ حاصل نہیں تھا ، اسی لئے اس نے دیت کی پیشکش کی۔ لیکن، باقی دو جرائم میں تو وہ ریاست کا مجرم تھا، تو ریاست نے مقدمے کی پیروی کیوں نہیں کی؟

اگر ڈیوس کا معاملہ اعلیٰ ترین سطح پر طے پا چکا تھا تو اُسے چھوڑنے کے اور بھی طریقے موجود تھے، شرعی قانون کی آڑہی کیوں؟ اس سے ہوا یہ ہے عالمی میڈیا پاکستان پرہی نہیں ، اسلامی قوانین پر بھی طنزیہ تبصرے کر رہا ہے اوراس کا قصور اُنہی پرعائد ہوتا ہے جو کبھی اِن اُنیس افراد کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں اور کبھی سترہ کروڑ عوام کو۔ لیکن وہ ”محب وطن “سیاستدان جو قومی حمیت اور جمہوری آزادی کے راگ الاپتے ہیں، لگامیں تو اُن کی بھی اُنہی ہاتھوں میں ہیں جو دور بیٹھے میڈیا ، مذہبی تنظیموں ، بیوروکریسی اورعدلیہ کی ڈوریں بھی ہلاتے ہیں۔

میں یہ نہیں کہتی کہ ڈیوس کے معاملے پر ہمیں امریکا سے جنگ کر لینی چاہئے تھی۔لیکن کیا یہی بہترین حل تھا؟ اگر امریکا کے ماتحت ہمارے حکمراں یہ فیصلہ کر ہی چکے تھے تو ڈیوس کو سفارت کار کا درجہ دینا کوئی ایسا مشکل بھی نہ تھا۔ لیکن ہائے رے مفاد!حکمراں ساکھ کیسے بچاتے، حکومت قرض کیسے لیتی ، حساس ادارے خود کو کیسے منواتے اور پھر امریکی انا کا بھی تو پاس رکھنا تھا۔ اتنے سارے مفادات کی خاطر اگر اسلام کے دامن پر آنچ آتی بھی ہے تو کیا۔۔۔

1 comment:

  1. Implementation of the 10th century developed sharia law boomeranged to embarrass the Pakistanis living in the 21st century. Raymond Davis’ release, in lieu of blood money, is the fulfillment of Islamist political parties demand for sharia implementation; instead of protesting, they should applaud the acceptance of their demands!

    This unintended consequence is an excellent example of how the misrepresentation of sharia and Islam can push Pakistani society, and the Muslim world, towards pre-Islamic Arabian tribal law! Muslims must first understand that the 10th century sharia law is inapplicable in the 21st century and then speak up against such misrepresentations. The book Connivance by Silence provides an excellent account of such misrepresentations.

    ReplyDelete