Sunday 29 May 2011

Badlay Badlay Meray Sarkaar Nazar Aatay Hain!


 بدلے بدلے میرے سرکار نظرآتے ہیں!

 میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ حالات کے بدلنے کے لئے خیالات کا بدلنا ضروری ہے یا خیالات بدلنے کے لئے حالات کا۔ لیکن ہمارے ملک میں تو صدیاں بیتیں، نہ خیالات تبدیل ہوئے نہ حالات۔ جو رد ہوئے تھے جہاں میں کئی صدی پہلے، وہ لوگ ہم پہ مسلط ہیں اس زمانے میں!

جن کو ہم مذہب پر سند سمجھتے تھے، انہوں نے مذہب ہی کو ایک سخت اور جامد رسم بناکررکھ دیا۔ جو ہمارے سیاسی رہبر تھے وہی رہزن بن گئے۔اور سرحدوں کے نگہبانوں کا تو کیا ہی کہئے، اس گھر کو آگ لگتی رہی گھر کے چراغ سے۔
ہمارا ملک ان دنوں پے در پے بھونچالوں کی زد میں ہے  اوران حالات کی کوکھ سے ایسی  تبدیلی جنم لے رہی ہے کہ بڑے بڑے اپنی پالیسی بدلنے پر مجبور ہو رہے ہیں ۔ جو دائیں بازو کے تھے وہ لیفٹ کی سیاست کر رہے ہیں اورجو بائیں کے تھے وہ دائیں بازو کا سہارا ڈھونڈتے دکھائی دے رہے ہیں۔جو سجی دکھا کے کھبی مارتے تھے وہ بھی دفاعی پوزیشن پر ہیں لیکن ملک کے لیے نہیں بلکہ خود اپنے لیے۔

اس وقت سب سے حیران کن مگر خوش آئند تبدیلی مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف میں دکھائی دے رہی ہے۔ کبھی اسٹیبلشمنٹ کے حامی اور کبھی ان سے ناراض ہو کر سخت اور جذباتی فیصلے کرنے والے میاں صاحب نے آج بردبار رویہ اپنا ئے ہوئے ہیں۔ استعفوں کے مطالبے کے بجائےعدالتی تحقیقاتی کمیشن بنانے کی بات ہو، خارجہ پالیسی کو فوج کے تسلط سے آزاد کرانے کا مطالبہ ہو، یا بھارت دشمن پالیسی کو ترک کرنا ہو، آج کے شریف صاحب میں جذباتیت نہیں ٹھہراؤ نظرآتا ہے۔

مسلم لیگ ق بھی ایک جماعت ہے، بلکہ بڑی جماعت ہے لیکن لگتا ہےاس کے نظریات میں تبدیلی واقع ہوئی تو بس اتنی کے کئی دہائیوں تک جس پارٹی کی مخالفت ان کی سیاست تھی آج اسی کے ساتھ اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ کل آمریت کے سائے میں جو پودا لگا تھا آج بھی یہ اسٹیبلشمنٹ کی چھتری تلے پروان چڑھ رہا ہے۔ایسا نہ ہوتاتوقاتل لیگ کہنے والوں کو سرآنکھوں پربٹھاناکیوں کرممکن ہوتا۔

باچاخان کے نظریات کی امین اے این پی اپنے بزرگوں کی روایت سے انحراف کرتے ہوئے اس پارٹی کی کشتی میں سوار ہوئی جن سے ان کے بزرگ ہمیشہ طوفان کی طرح ٹکراتے رہے۔باچاخان اورولی خان تو اسٹیبلشمنٹ اورامریکاسے پنجہ لڑاتے رہے لیکن ان کے جاں نشینوں نے امریکاکی بانہوں میں بانہیں ڈال دیں اوراسٹیبلشمنٹ کے گلے کا ہار بھی بن گئے۔ 

بات کی جائے ملک کی سب بڑی جماعت پیپلزپارٹی کی تو وہ ہمیشہ ہی سے اسٹیبلشمنٹ کی ناپسندیدہ رہی تھی۔لیکن جب سے اس کی زمام آصف زرداری صاحب کے ہاتھ میں آئی ہےیہ پارٹی اسٹیبلشمنٹ کی اوراسٹیبلشمنٹ ِاس کی محبوب بن گئی ہے۔بھٹو صاحب کا جوش اور ولولہ جو کبھی جیالوں کا دل موہ لیتا تھا، اب اس کی جگہ مفاہمتی مسکراہٹ نے لے لی ہے۔ ملک میں تواتر سے پیش آنے والے حادثات نے اس پارٹی کو ڈٹ کر کھڑا ہونے اور جمہوری بالادستی قائم کرنے کا سنہری موقع فراہم کیا۔ لیکن اس پارٹی نے وہی رویہ اختیار کیا جو بی بی کے قتل کے بعد سے مفاہمت کی آڑ میں جاری ہے۔لیکن پیپلز پارٹی کی طرف سے حادثات کا مقا بلہ کرے بھی تو کون؟ وزیر دفاع ہر اہم موقع پر غائب ہوتے ہیں، وزیرِ قانون مقدمے بازی کے لئے وزارت چھوڑ دیتے ہیں، وزیر داخلہ قوم کو گمراہ کرنے اور روٹھوں کو منانے کے لئے کبھی کراچی تو کبھی لندن یاترا کرتے رہتے ہیں۔ اور رہی وزارت خارجہ تواس کی اہمیت ہمارے نزدیک اتنی ہی ہے کہ بنا وزیر ہی چل رہی ہے۔

رہ گئی دفاعی قوت تو اس میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے لیکن جو تبدیلی لا سکتے ہیں شاید انہیں اس بات کا ادراک ہی نہیں۔اور دفاعی قیادت کے اسی سخت گیر موقف کی وجہ سے آج ہم اس دوراہے ہر آ پہنچے ہیں جس کے آگے کنواں اور پیچھےکھائی ہے۔ جنرل کیانی جو اس ملک کی سب سے بااثر شخصیت ہیں وہ نہ صرف ڈی جی ملٹری آپریشن، ڈی جی آئی ایس آئی رہ چکے ہیں بلکہ اب اپنے موجودہ عہدے کی دوسری مدت پوری کر رہے ہیں۔ اگر واقعی کسی تبدیلی کا امکان ہے تو کم از کم ان کے دور میں آتی ہوئی دکھائی نہیں دیتی کیونکہ پاکستان جس وقت اپنی موجودہ پالیسی کے خدو خال وضع کر رہا تھاتو جنرل کیانی اس وقت پالیسی سازوں کی فہرست میں شامل تھے ۔جب پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا، جب ڈرون حملوں کی غیر اعلانیہ اجازت دی گئی اورجب پاکستان میں سی آئی اے کا اثرو رسوخ بڑھا،اس دوران جنرل کیانی کہیں نہ کہیں فیصلہ ساز عہدے پر متعین تھے۔ایک طرف امریکا کی مصیبت کو اگر زہرمار کیا جا رہا تھا تو دوسری طرف اَسی کی دہائی کے ملبے کو بھی شہ رگ کے بہت قریب رکھا جا رہا تھا۔ اور یوں پاکستان دو کشتیوں میں سوار رہا، آج بھی ہے اور کون جانے کب تک رہے گا۔

اگر کیانی صاحب کوئی تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو پہلے ان کو اپنی سوچ، پھر اپنی ٹیم کی سوچ اور پھر ساٹھ سال سے زائد رائج روایتی پالیسی کو بدلنا ہو گا۔اندرونی پالیسی تو شاید ان کی مدت پوری ہونےتک جاری رہے گی لیکن بظاہر تو ان کے منتخب کردہ جرنیلوں کو پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کرنا ہی پڑا اور اسی لئے اُنہیں اِن کیمرا بریفنگ بھی دیتے ہی بنی۔بہرحال اتنا بدلاؤ تو ضرور آیاہے کہ  وہ میڈیا جو کبھی ان کے سامنے آواز بلند کرنے کی جسارت نہیں کر سکتا تھا، آج ان پر کھلے لفظوں میں تنقید کر رہا ہے۔ ۔فی الحال اسی کو غنیمت جانئیے۔

کچھ بھی ہو لیکن تبدیلی کی کونپلیں پھوٹنا شروع ہو گئی ہیں۔ خدا کرے کہ یہ کونپلیں ملک و قوم کے لئے شجر سایہ دار بنیں۔اگر ہم امریکا کے طیارے نہ روک سکے، اسامہ بن لادن کی موجودگی نہ بھانپ سکے، چار دہشت گردوں کوپی این ایس مہران میں گھسنے سے روک نہ سکے تو پھر ہمیں اس تبدیلی کو بھی آنے سے نہیں روکنا چاہیے۔ آج تیور بدلے ہیں، شاید کل سوچ بھی بدل جائے۔اور کہیں اگر اس تبدیلی کا مقصد صرف اقتدار پانا ہےتو حالات میں وقتی بدلاؤ تو آسکتا ہے لیکن اس قوم کی تقدیر نہیں بدلے گی۔ 

No comments:

Post a Comment